Saturday, April 26, 2014

Personalities, - Bioghraphy, - Allama Sardar Ahmed



▌▌◙◙◙◙◙◙ ▌▌

:-> - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -


Allama Sardar Ahmed
ولادت باسعادت:
حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ ١٣٢٣ھ /١٩٠٥ء کو موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور )مشرقی پنجاب ، انڈیا( میں پیدا ہوئے۔ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کا مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔
اسم گرامی:
والدین نے آپ کا نام )باقی بھائیوں کے ناموں کی مناسبت سے( سردار محمد رکھا۔ لیکن جب آپ علم دین کے حصول کیلئے بریلی شریف تشریف لے گئے تو وہاں کے اکابر اساتذہ ، احباب اور ہم درس طلبہ آپ کو سردار احمد کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ اس صورت حال میں آپ نے والدین کا تجویز کردہ نام بھی ترک نہ فرمایا اور اساتذہ کرام کا عطا کردہ نام بھی استعمال میں رکھا ۔ یوں آپ اپنا نام محمد سردار احمد تحریر فرمایا کرتے تھے۔
کنیت:
مناظرہ بریلی )١٣٥٤ھ /١٩٣٥ء( میں دیو بندیوں کے منظور نظر مناظر مولوی منظور سنبھلی کے مقابلہ میں عدیم المثال کامیابی پر آپ کی کنیت ابو المنظور مشہور ہوگئی۔ بعد میں صاحبزادہ محمد فضل رسول صاحب کی ولادت پر ابو الفضل ہوئی اور بمقتضائے " الاَسْمَاءُ تَتَنَزَّلُ مِنَ السَّمَائِ" اس عظیم المرتبت صاحب علم و فضل کے لئے یہی کنیت موزوں بھی تھی۔
نائبِ دینِ نبی سردار احمد تیرا نام
یعنی تو فضل خدا سے قوم کا سردار ہے
خاندان:
آپ کا تعلق سیہول جٹ خاندان سے ہے ۔ شرافت ، دیانت ، پاکبازی اور مہمان نوازی میں یہ خاندان علاقہ بھر میں شہرت رکھتا تھا۔ پوراخاندان مشائخ کرام کامرید اور عقیدت مند تھا ۔ حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ سے کمال درجہ کی محبت رکھتا تھا۔
والدین کریمین:
آپ کے والد ماجدکا اسم گرامی چوہدری میراں بخش چشتی تھا ۔ ان کا پیشہ کاشت کاری تھا ۔ زمین گاؤں کے قریب ہی تھی۔ تقریباً پچاس بیگھہ مزروعہ زمین کے مالک تھے۔ اس میں نصف زمین چاہی اور اتنی ہی بارانی تھی۔ زمین زرخیر ہونے کی وجہ سے نہایت عمدہ فصل اور اعلیٰ قسم کا کماد پیدا ہوتا تھا۔
چوہدری میراں بخش چشتی دیہاتی ماحول کی برائیوں سے الگ تھلگ رہتے ۔ کسی کی غیبت نہ کرتے ۔ کسی کے نقصان میں راضی نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دشمنی کسی سے پیدا نہ ہوئی۔ یونہی حضرت محدث اعظم پاکستان کی والدہ محترمہ نہایت پاک سیرت عفیفہ تھیں۔ پابند صوم و صلوٰۃ اور حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کی فدائی و شیدائی تھیں۔
چوہدری میراں بخش چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال محرم الحرام ١٣٣٧ھ/ ١٤ اکتوبر ١٩١٨ء کو ہوا۔ جبکہ والدہ محترمہ دو برس قبل انتقال فرما چکی تھیں۔
پیرو مرشد جیسا ہو جاؤں:
شریعت و طریقت سے محبت کی بناء پر آپ نے اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سراج العارفین حضرت شاہ سراج الحق چشتی قدس سرہ کے دستِ اقدس پر بیعت کرلی ۔ یہ بیعت مروجہ رسمی بیعت نہ تھی بلکہ حقیقی بیعت تھی ۔ شیخ طریقت سے عقیدت ایسی پختہ تھی کہ اکثر و بیشتر اس تمنا کا شدت سے اظہار فرمایا کرتے تھے کہ :
"میرا دل چاہتا ہے کہ میں پیر و مرشد صوفی سراج الحق صاحب جیسا ہوجاؤں۔"
تحصیل علم
قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کو اس دور کے رواج کے مطابق پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا ۔ یہا ں پر آپ نے مولانا ذوالفقار علی قریشی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو پرائمری اسکول میں صدر مدرس ہونے کے ساتھ گاؤں کی مسجد کے امام و خطیب بھی تھے۔قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن مجید ناظرہ بھی مولانا قریشی سے پڑھا تھا۔ مولانا موصوف حضرت شیخ الحدیث پر خصوصی توجہ فرماتے اور پیشانی میں سعادت ِازلی کے نمایاں آثار دیکھ کراکثر بزبانِ پنجابی فرماتے :
"اوئے جٹّا! توں تے وڈا نامور مولوی عمل والا ہو ویں دا۔"
میٹرک کا سالانہ امتحان جو اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد آپ نے پٹواری کا امتحان دینے کا ارادہ فرمایا وجہ یہ تھی کہ آپ کے شیخِ طریقت حضرت شاہ سراج الحق چشتی علیہ الرحمۃ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کر رکھا تھا۔ لہٰذا ان کی پیروی میں آپ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کیا لیکن ملازمت نہ فرمائی۔پولیس کی ملازمت کی بھی پیشکش ہوئی لیکن آپ نے انکار فرمادیا۔
دینی تعلیم کا آغاز:
ایف ۔اے کا امتحان دینے کیلئے آپ لاہور تشریف لائے اور یہاں امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ انہی دنوں انجمن حزب الاحناف کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ دین سے فطری محبت و عقیدت آپ کو کشاں کشاں اس اجلاس میں لے گئی۔ یا یوں کہئیے کہ "فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنابندی" کے مصداق قدرت کو اب یہی منظور تھا کہ آپ کو اس عظیم کام کی جانب متوجہ کیا جائے جس کی خاطر آپ کو پیدا کیا گیا۔
دورانِ اجلاس حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے تقریر کرتے ہوئے شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کی بریلی سے تشریف آوری کا اعلان نہایت شاندار الفاظ میں یوں فرمایا:
"اعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت ، مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ، صاحب الدلائل القاہرہ ، ذی التصانیف الباہرہ، امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضاخان صاحب بریلوی قدس سرہ کے شہزادے حامی سنت، ماحی بدعت، رہبر شریعت، فیض درجت، مفتی انام ، مرجع الخواص والعوام ،حجۃ الاسلام مولانا الشاہ حامد رضا خان صاحب تشریف لارہے ہیں۔"
حضرت شیخ الحدیث نے سوچا کہ جب اعلان کرنے والا خود اس درجہ عظیم الشان عالم ہے تو جس کی آمد کا اعلان کیا جارہا ہے وہ کس پائے کا عالم ہوگا لہٰذا آنے والے کی عظمت و شان کا تصور رکے آپ زیارت کے مشتاق ہوگئے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور حضرت حجۃ الاسلام جو حسن باطنی کے ساتھ حسن ظاہری سے بھی مالامال تھے جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ مشتاقانِ دید پروانوں کی طرح آپ کے جمال ِ پاک پر نثار ہورہے تھے۔ اس ہجوم میں حضرت شیخ الحدیث بھی تجلیات ِ دیدار سے اپنے قلب و ذہن کو منور کررہے تھے ۔ اس زیارت کا فوری اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ نے ایف ۔ اے پاس کرنے کا ارادہ ترک کر کے حصول علم دین اور تبلیغ اسلام کا پختہ عزم کرلیا اور اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت حجۃ الاسلام کے ہمراہ بریلی جانے کا ارادہ فرمالیا۔ لیکن ابھی حضرت سے اجازت لینے کا مرحلہ باقی تھا لہٰذا دھڑکتے دل کے ساتھ حضرت حجۃ الاسلام کی قیام گاہ آستانہ عالیہ حضرت شاہ محمد غوث علیہ الرحمۃ حاضر ہوئے ۔
عرض مدّعا:
آپ نے حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں کی خدمت میں اپنی کیفیت اور قلبی انقلاب کا ذکر کر کے بریلی ساتھ جانے اور علم دین حاصل کرنے کی تمنا کا اظہار کیا حضرت حجۃ الاسلام پہلی نظر میں ہی کشتہ تیر نظر کو پہچان گئے اور پیشانی پر چمکتے ہوئے سعادت ِ ازلی کے آثار دیکھ کر بھانپ گئے کہ یہ نوجوان ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر اور اہلسنت کا عظیم رہبر ہوگا۔ لہٰذا بکمالِ شفقت حضرت شیخ الحدیث کی درخواست کو شرف ِ قبولیت عطا فرمایا اور دو دن مزید قیام کے بعد آپ کو اپنے ساتھ بریلی شریف لے گئے۔
مرکز علم و عرفاں بریلی میں:
بریلی پہنچ کر آپ نے دارالعلوم منظر اسلام میں تعلیم شروع فرمائی۔ دارالعلوم کے دیگر طلبہ کا قیام شہر کی مساجد میں ہوتا تھا لیکن نو وارد طالب علم محمد سردار احمد کو حضرت حجۃ الاسلام نے خاص اپنے آستانے پر ٹھہرایا۔ حضرت شیخ الحدیث کے قیام، طعام اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ بھی آپ نے لے لیا۔ جس قسم کا لباس اپنے صاحبزادوں کیلئے بنواتے اسی قسم کا لباس آپ کے لئے بھی سلواتے ۔ یہاں تک کہ لباس کے رنگ میں بھی یکسانیت اختیار فرماتے۔
جب دیکھتا، پڑھتے دیکھتا:
حضرت مفتیئ اعظم فرماتے ہیں :"میں جب ان )حضرت شیخ الحدیث( کو دیکھتا، پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں ، قیام گاہ پر، حتّٰی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی ۔اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے ۔ ان کے اس والہانہ ذوق ِ تحصیل علم سے میں بہت متاثر ہوا ۔
میرے پاس دوسرے پنجابی طالب علم مولوی نذیر احمد سلمہ پڑھتے تھے ان سے دریافت کرنے پر انہوں نے ان کی ساری سرگزشت سنائی پھر ان کے ذریعے وہ میرے پاس آنے جانے لگے ان کے باصرار درخواست کرنے اور مولوی نذیر احمدکی سفارش پر میں نے انہیں منیہ ، قدوری، کنز اور شرح جامی تک پڑھایا۔"
بریلی سے اجمیر:
یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین تھے۔ اور حضرت کی بے مثال تدریس کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہاتھا۔ حضرت شیخ الحدیث کو اﷲ تعالیٰ نے جس عظیم الشان خدمت دین کیلئے پیدا فرمایا تھا اس کیلئے حضرت صدرالشریعہ جیسے بحر العلوم مربی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جب خود خانوادہئ رضویت کے بعض افراد مثلاً مولانا محمد ادریس رضاخاں اجمیر مقدس بغرض تعلیم جانے لگے تو آپ بھی ہر دو صاحبزادگانِ اعلیٰ حضرت سے اجازت لیکر حضرت صدرالشریعہ کی خدمت میں اجمیر مقدس حاضر ہوگئے۔ سلطان الہند خواجہئ اجمیر قدس سرہ کی بارگاہ عرش پناہ میں علم و فضل کے قطب اوحد) حضرت صدرالشریعہ( سے انہیں کیا ملا؟ اس بارے میں حضور مفتیئ اعظم مولانا مصطفی رضا خاں قدس سرہ کی شہادت کافی ہے۔ فرماتے ہیں:
"پھر تو بحر العلوم کے پاس گئے اور خود بھی بحر العلوم ہوگئے۔"
تدریس
حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ بے مثل محدث ، عظیم فقیہ، کہنہ مشق مدرس ، کامیاب مناظر ،بالغ نظر مفتی، بہترین مصنف ، با فیض شیخ طریقت اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ چاہتے تو دین کی خدمت کیلئے تدریس کے بجائے کوئی اور میدان منتخب فرمالیتے لیکن اس شعبے میں قحط الرجال کو دیکھتے ہوئے اپنے اُستاذِ محترم حضرت صدر الشریعہ کی اتباع میں آپ نے خود کو دینی علوم کی تدریس کیلئے ہمہ تن وقف کردیا ۔ خوش قسمتی سے فارغ التحصیل ہوتے ہی آپ نے اپنی مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ١٣٥٢ھ/ ١٩٣٣ء میں تدریس کا شاندار آغاز کیا ۔
فیصل آباد تشریف آوری:
آپ نے مفتیئ اعظم مولانا شاہ مصطفی رضاخاں بریلوی جو ان دنوں بغرض ِحج حرمین شریفین میں مقیم تھے سے استصواب کیا کہ آیا ساروکی رہ کر دین کی خدمت کروں یا لائل پور میں ؟ مفتیئ اعظم کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا کہ حضرت شیخ الحدیث کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں کیلئے ساروکی کا دیہاتی ماحول نہیں بلکہ لائل پور جیسا مرکزی شہر زیادہ موزوں ہے لہٰذا آپ نے دیارِ حبیب سے جو جواب مرحمت فرمایا اس میں لائل پور میں خدمتِ دین انجام دینے کی طرف اشارہ تھا۔ رمضان المبارک ١٣٦٨ھ/جولائی١٩٤٩ء میں آپ لائل پور )فیصل آباد ( تشریف لے آئے۔ ابتداء میں آپ کا قیام محلہ سنت پورہ میں تھا ۔ آپ کا ارادہ یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال )شوال ١٣٦٨ھ ( سے تدریس کا آغاز کردیا جائے ۔
وعظ و تقریر
اگرچہ تدریس، تبلیغ کی احسن صورت ہے۔ لیکن عوام الناس پر براہِ راست اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے تقریر کی اہمیت کا انکار بھی ممکن نہیں۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ، اس ذریعہئ تبلیغ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذاآپ دن کو تدریس کے فرائض سر انجام دیتے اور رات کو فیصل آباد کی گلی گلی ، کوچے کوچے میں عشق مصطفی علیہ التحیہ و الثناء کی خوشبوئیں اور حسنِ عمل کے موتی بکھیرتے۔
تحریکِ پاکستان میں شرکت:
مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کیلئے آپ نے بھر پور جد وجہد فرمائی۔ اس مقصد کیلئے قائم اہل سنت کی ملک گیر تنظیم آل انڈیا سُنی کانفرنس کے کئی اجلاسوں میں آپ نے شرکت فرمائی۔
قیام ِ پاکستان پر اظہارِ مسرت:
جمعۃ الوداع )٢٧رمضان المبارک ١٣٦٦ھ/ ١٥ اگست ١٩٤٧ء ( کا خطبہ آپ نے اپنے آبائی قصبہ دیال گڑھ میں دیا۔اس موقع پر آپ نے قیامِ پاکستان پر اظہارِ مسرت فرماتے ہوئے اﷲ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نئے اسلامی ملک کے قیام پر مبارکباد دی۔
ذوقِ عبادت:
عبادت کا ایسا ذوق و شوق تھا کہ بچپن میں ہی چلتے پھرتے ذکر کرتے اور نعت پڑھتے رہتے ۔ والد ماجد کی انگلی پکڑ کر مسجد میں جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ آپ کی نماز روایتی نماز نہ ہوتی بلکہ بارگاہِ خداوندی میں حاضری کا تصور ذہن پر غالب رہتا۔ اجمیر شریف کے زمانہ طالب علمی میں آپ کی نمازوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حافظ ملت مولانا عبد العزیز مبارکپوری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :" سلسلہ کے وظائف اور نماز با جماعت کے پابند تھے۔ خشیّتِ ربّانی کا یہ عالم تھا کہ نماز میں جب امام سے آیت ترہیب سنتے تو آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا حتیٰ کہ پاس والے نمازی کو محسوس ہوتا تھا یہ طالب علمانہ مقدس زندگی کی کیفیات ہیں۔ اس سے آپ کی روحانیت کا اندازہ ہوسکتا ہے اور آپ کے مقامِ رفیع کا پتہ چل سکتا ہے۔
توکل علی اﷲ :
آپ کی حیات طیبہ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے ہر موڑ پر اﷲ تعالیٰ پر توکل اور کامل بھروسہ جلوہ آراء نظر آتا ہے ۔ چشمِ تصور سے ذرا دیکھئے کہ فیصل آباد کا اجنبی اور مخالفانہ ماحول اور بریلی کے نامور شیخ الحدیث کا ایک چبوترے پر بیٹھ کردرسِ حدیث شروع کردینا،مخالفوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مدرسہ اور پاکستان کی عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھ دینا۔ اپنوں، بیگانوں کی جانب سے سازشوں حتیٰ کہ قاتلانہ حملوں کے باوجود پایہئ ثبات میں لغزش نہ آنابغیر خدا پر توکل اور بھروسے کے کیا ممکن نظر آتا ہے؟
عشقِ مصطفی علیہ التحیہ و الثناء:
اس عقیدے پر پوری اُمت کا قطعی ، یقینی اجماع ہے کہ ایمان کی جان عشقِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ تمام رشتوں، ناتوں، دوستیوں اور تعلقات سے بڑھ کر اگر سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت نہیں تو ایمان نا مکمل ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
مغزِ قرآں، روحِ ایماں ، جانِ دیں
ہست حُبِّ رحمۃ للعلمین
حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کے اخلاق و عادات کی سب سے نمایاں بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت ہے۔ ان کے اس وصف ِ خاص کا اظہار صرف ان کی زبان ہی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ان کے دل میں رچا ہوا اور رگ و ریشہ میں سمایاہوا تھا۔
اَلْحُبُّ ِﷲِ وَالْبُغْضُ ِﷲِ:
اﷲ کی رضا کی خاطر دوستی اور اسی کی خاطر دشمنی تکمیل ایمان کیلئے ضروری ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
مَنْ اَحَبَّ ِﷲِ وَ اَبْغَضَ ِﷲِ وَ اَعْطٰی ِﷲِ وَ مَنَعَ ِﷲِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ
جس نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے محبت کی ، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے عداوت کی، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ دیا اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ نہ دیا اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک پر یہاں تک عمل کیا کہ اﷲ اور اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تعلقات تو کجا عمر بھر مصافحہ تک نہ کیا۔ عمر کے آخری ایام میں حضرت سیدمعصوم شاہ نوری سے فرمایا: "شاہ صاحب ! میری دو باتوں کے گواہ رہنا۔ایک تو یہ کہ یہ فقیر حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کا مرید اور غلام ہے دوسری یہ کہ اس فقیر نے عمر بھر کسی بے دین سے مصافحہ نہیں کیا۔"
صدارت نہیں سدا ردّ:
جس طرح آپ بد مذہبوں اور بے دینوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے ویسے ہی آپ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی شرکت سے گریز فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ دیوبندیوں ، وہابیوں کا ایک وفد حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے پروگرام کے مطابق ایک مخلوط مشترکہ جلسہ کی صدارت کیلئے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فوراً جواب دیا: " فقیر ایسے جلسوں کی صدارت نہیں کرتا بلکہ ان کا سداردّ کرتا ہے۔" اس پر وفد کے ارکان لاجواب ہوکر چل دیئے۔
اساتذہ و مشائخ:
الماس و یاقوت بے شک قیمتی ہوتے ہیں مگر الماس تراش کی تراش خراش انہیں کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے۔اسی طرح بڑے بڑے علماء کی علمیت و قابلیت ان کے اساتذہ کی مرہون منت ہے ۔ ذیل میں حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں:
حضرت صدرالشریعہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ
حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت مفتیئ اعظم مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری علیہ الرحمۃ
مولانا حاجی پیر محمد خان علیہ الرحمۃ
حکیم مولوی ذوالفقار علی قریشی علیہ الرحمۃ
علالت و آخری ایام :
شب و روز کی جاں گسل مصروفیات کا اثر حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کی صحت پر پڑا جس کے نتیجے میں آپ کی طبیعت بگڑنے لگی۔پہلے پہل تو آپ نے بالکل پرواہ نہ کی اور اسی ضعف و نقاہت کے عالم میں حسب معمول درس و تدریس ، وعظ و تقریر اور دعوت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٢٥ صفر المظفر ١٣٨١ھ/٨ اگست ١٩٦١ء کو عرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر آپ جلسہ گاہ تک بڑی مشکل سے تشریف لائے۔ ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے ہزاروں تلامذہ و مریدین اور اکابر علماء و مشائخ آپ کی ناسازیئ طبع سے بہت مغموم اور سخت متفکر ہوئے۔
اسی عرس کے موقع پر حضرت مولانا عنایت اﷲ صاحب نے خدمت ِ اقدس میں عرض کیا کہ صاحبزادہ محمد فضل رسول کو دستارسجادگی عطا فرمائیں اور انہیں اپنا خلیفہ اور قائم مقام مقرر فرمائیں۔ فرمایا : "اچھا پگڑی لاؤ یہ کام بھی ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند کردے گاجس طرح حضرت صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے صاحبزادے کی دستار بندی پہلے ہوگئی تھی، وہ بھی درجات حاصل کرگئے"۔ چنانچہ بطور خلیفہ و جانشین حضر ت صاحبزادہ محمد فضل رسول کی دستار بندی تمام احباب کی موجودگی میں سنی رضوی جامع مسجد میں کی گئی۔
وصال شریف:
حضرت محدث اعظم پاکستان نے وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل اشارے ، کنایے میں اپنے وصال کا ذکر کرنا شروع کردیا تھا تاکہ احباب ہجر و فراق کے اس صدمے کو سہنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔
وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل آپ نے خواب دیکھا جس میں اکابر اُمت، مشائخِ عظام ، حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں بریلوی قدس سرہ،، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی ، صدر الافاضل بدر المماثل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مرشدِ برحق خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری اور دیگر پاکانِ اُمت علیہم الرحمۃ کی زیارت فرمائی۔ یہ خواب احباب و خدام سے بیان فرما کر ارشاد فرمایا:
" ان مشائخ عظام کی زیارت و ملاقات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ فقیر خود ان سے جا ملے"۔
دمِ آخر آپ کے کان میں اذان دی گئی اور سورہ یٰسین شریف ، شجرہ قادریہ رضویہ، درود تاج اور قصیدہ غوثیہ پڑھا گیا۔ اسی عالم میں رات ایک بج کر چالیس منٹ پر اﷲ ہو کہتے ہوئے یہ آفتابِ علم و فضل جس کی نورانی کرنوں سے عالمِ اسلام برسوں منور ہوتا رہا، ہمیشہ کیلئے روپوش ہوگیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
یکم شعبان المعظم ١٣٨٢ھ / ٢٩ دسمبر ١٩٦٢ء کی شب کو سورج ڈوبا اور صبح ہوتے ہوتے دنیائے علم و حکمت میں اندھیرا پھیل گیا۔
غسل و جنازہ:
کراچی میں آپ کو غسل دیا گیا۔ غسل دینے والوں کے نام درج ذیل ہیں:
مولانا عبد المصطفیٰ الازہری ، مولانا محمد عمر نعیمی ، مولانا محمد محسن فقیہ شافعی ، مولانا محمد معین الدین شافعی ، مولانا عبد الحمید ، سیٹھ حاجی اسمٰعیل جمال ، حاجی صوفی اﷲ رکھا۔
بعد غسل آپ کو کفن پہنایا گیا، ظفر علی نعمانی صاحب نے کفن پر کلمہ طیبہ لکھا۔ علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے " یا شیخ سیدعبد القادر جیلانی شیأاً ﷲ " لکھا اور مولانا محمد معین الدین شافعی نے" یا غوث اعظم دستگیرما" لکھا ۔ حضرت محدث اعظم کی موجودگی میں ایک مرتبہ سرکار غوثِ پاک کی منقبت پڑھتے ہوئے یہ شعر پڑھا گیا :
عزیزوں کر چکو تیار جب میرے جنازے کو
تو لکھ دینا کفن پر نام والا غوثِ اعظم کا
آپ نے اسی وقت وصیت فرمائی کہ مولوی معین ! یاد رکھنا میرے کفن پر حضور آقائے کرم ، سرکار غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی ضرور لکھنا۔ چنانچہ آپ کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا اسمِ گرامی کفن پر تحریر کیا گیا۔ جنازہ تیار کرکے آرام باغ لایا گیا۔ راستے میں حسبِ وصیت درود شریف، کلمہ طیبہ، نعت شریف، منقبت غوثِ پاک اور صلوٰۃ و سلام پڑھا گیا۔ نمازِ جنازہ کی امامت کے فرائض شہزادہ صدر الشریعہ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے انجام دئیے۔ ہزاروں افراد جنازے میں شریک تھے۔ کراچی کے تقریباً تمام علماء کرام و مشائخ عظام موجود تھے۔ جن میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانامحمد عمر نعیمی، مفتی ظفر علی نعمانی، پیرزادہ سید عبد القادر گیلانی سفیر عراق، مولانا شاہ ضیاء القادری ، مولانا قاری محمد محبوب رضا خاں اور مولانا عبد السلام باندوی قابل ذکر ہیں۔
نمازِ جنازہ کے بعد چہرہ انور کی زیارت کرائی گئی۔ بعدہ، تابوت میں رکھا گیا۔ اب "رضوی دولھا" کو ہزاروں باراتی بڑی شان و شوکت اور پیار و محبت سے کندھوں پر اٹھائے کراچی اسٹیشن تک لائے، راستہ بھر نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں اسٹیشن پر صلوٰۃ و سلام ہوا پھر ہزاروں اشک بار آنکھوں نے اپنے محبوب مرشد و قائد کو رخصت کیا۔
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے:
فیصل آباد پہنچنے پر جنازہ اُٹھایا گیا اور ہزاروں افراد اشک بار آنکھوں کے ساتھ درود وسلام کی صداؤں میں مرکز اہلسنت جامعہ رضویہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس جلوس میں علماء بھی تھے اور مشائخ بھی، مدرس بھی تھے اور محقق بھی، مریدین بھی تھے اور معتقدین بھی، ہم سبق رفیق بھی تھے اور شاگرد بھی، اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی، چھتوں پر خواتین اور بچے بھی اس نورانی جلوس کا نظارہ کررہے تھے۔
انوار کی بارش:
سرکلر روڈ سے گزر کر جنازہ جب کچہری بازار میں داخل ہوا تو عشقِ رسالت کے جلوؤں نے اور ہی رنگ اختیار کرلیا۔اس کے اثرات نمایاں اور بہت واضح ہوگئے اور محسوس صورت میں نظر آنے لگے۔ ہوا یوں کہ تابوت مبارک پر انوار و تجلیات کی بارش ہر آنکھ کو صاف طورپر نظر آنے لگی۔ بچے، بوڑھے، جوان ہر قسم کے لوگ وہاں موجود تھے اور بڑے استعجاب کے عالم میں انوار کی اس بارش کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب یہ بے مثال جلوس گھنٹہ گھر پہنچا تو یکایک اس نور نے دبیر چادر کی صورت اختیار کرلی اور سارا تابوت اس میں چھپ گیا۔ چمکیلے تانبے کے باریک پتروں کی طرح نور کی سنہری کرنیں اس طرح تابوت پر گر رہی تھیں کہ ہزاروں نے تعجب سے اس آسمانی رحمت کو دیکھا، نور کی اس لطیف اور محسوس دھند میں جب جنازہ چھپ گیا تو جنازہ اُٹھانے والوں کو پکار کر ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ تابوت کہاں گیا؟
چند لمحات یہی کیفیت رہی پھر تابوت کے پاؤں کی طرف سے کمان کی طرح نور اُڑا اورلوگوں کو دوبارہ سب کچھ نظر آگیا۔ اس واقعہ کے عینی شاہد ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں اپنے ہی نہیں وہ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت کی ذات سے خوامخواہ اختلاف تھا۔
فقید المثال جنازہ:
حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول خلف اکبر حضرت محدث اعظم کی اجازت سے مولانا عبدالقادر احمد آبادی نے نمازِ جنازہ بعد ظہر پڑھائی۔ لاکھوں افراد پر مشتمل نمازِ جنازہ کے عظیم اجتماع کو دیکھ کر ہر مکتبِ فکر کے افراد نے اعتراف کیا کہ فیصل آباد کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا۔
آخری دیدار:
نمازِ جنازہ کے بعد جسد مبارک کو سنی رضوی جامع مسجد سے ملحق انجمن فدایانِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دفتر میں رکھ دیا گیا۔ تاکہ آخری زیارت سہولت سے ہوسکے۔ زیارت کرنے والے ایک دروازہ سے داخل ہوتے اور دوسرے دروازہ سے نکل جاتے۔ وصال فرمائے ہوئے دو دن اور دو راتیں گزرنے کے باوجود چہرہ مبارک کی تازگی کا عالم یہ تھا کہ پھولوں میں سجا ہوا چہرہ خود بھی پھول لگ رہا تھا۔ اس حسین اور دل نواز منظر کو جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا اور ہٹنے کا نام نہ لیتا، مجبوراً اسے ہٹا کر دوسروں کو زیارت کا موقع دیاجاتا، آخری دیدار کیلئے مشتاقوں کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اگر یہ سلسلہ صبح تک جاری رکھا جاتا تو بھی ختم نہ ہوتا۔ ناچار شام سواسات بجے تک چہرہئ مبارک دکھایا گیا اس کے بعد تدفین کیلئے لے جایا گیا۔
آخری آرام گاہ:
سنی رضوی جامع مسجد اور دارالحدیث کے درمیان واقع عارضی کمرہ جس سے درجہ حفظ کے طلباء کی درس گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آخری آرام گاہ بنا۔ ذکر و درود و سلام کی گونج میں آپ کا جسد مبارک یہاں لایا گیا۔ ہزاروں عقیدت مند اشکبار آنکھوں سے آخری زیارت کررہے تھے۔ حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی ، شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی، مولانامفتی نواب الدین اور حاٖظ محمد شفیع رضوی کی موجودگی میں مولانا عبد القادر ، مولانا معین الدین اور صوفی اﷲ رکھا قبر شریف کے اندر اترے اور آپ کے جسد اطہر کو رات ساڑھے سات بجے ہمیشہ کیلئے آخری آرام گاہ میں اُتارا۔
تلامذہ وخلفاء :
درخت اپنے پھل سے اور اُستاذ اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتاہے ۔ یوں تو حضرت محدثِ اعظم کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں دیہاتوں بلکہ بیرون ملک سے آپ کے درس کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت محدثِ اعظم کے جلیل القدر تلامذہ میں سے چند کے اسماء
گرامی پیشِ خدمت ہیں:
مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا خاں بریلوی،
شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی،
اُستاذ العلماء مولانا علامہ سید جلال الدین شاہ صاحب،
اُستاذ العلماء علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی،
نبیرہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ حماد رضا نعمانی میاں،
پیر طریقت حضرت مولانا پیر محمد فاضل نقشبندی،
اُستاذ العلماء حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی،
شمس العلماء علامہ مفتی محمد نظام الدین سہسرامی،
مفتیئ اعظم کراچی علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی،
شیر اہل سنت مولانا محمد عنایت اﷲ قادری رضوی،
مخدوم ملت علامہ سبطین رضا خاں بریلوی،
اُستاذ العلماء علامہ تحسین رضا خاں بریلوی،
ریحانِ ملت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی،
علامہ ابو الشاہ عبد القادر احمد آبادی،
شیخ الفقہ مولانا محمد شمس الزماں قادری رضوی،
اُستاذ العلماء مولاناصاحبزادہ عزیز احمد سیالوی،
اُستاذ العلماء مولانا معین الدین شافعی رضوی،
مجاہد ملت علامہ الحاج ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی،
اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی،
عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی،
اُستاذ العلماء علامہ مفتی محمد حسین قادری رضوی،
شیخ الحدیث علامہ ابو الفتح محمد نصر اﷲ خان افغانی،
خطیبِ پاکستان مولانا محمد بشیراحمد رضوی وغیرہ۔
اولاد امجاد:
حضرت محدث اعظم کو اﷲ تعالیٰ نے چار صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ صاحبزادگان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
)١( محمد فضل رسول
)٢( محمد فضل رحیم
)٣( محمد فضل احمد رضا
)٤( محمد فضل کریم
صاحبزادہ محمد فضل رحیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جبکہ تینوں صاحبزادگان اور چھ صاحبزادیاں حضرت محدث اعظم کے وصال کے وقت بقید حیات تھیں۔





















/-

Regards,
NAJIMUDEEN M


{Edior & Publishor}

* More Than Ten Thousand(10,000) {Masha Allah}Most Usefull Articles!, In Various Topics!! :- Read And Get Benifite! * Visit :-

ShareShare

Follow Us











Qur'an Related, - Prophet (saas) with angels



-
▌▌◙◙◙◙◙◙ ▌▌

:-> - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -












The Qur'an's moral teachings require that Muslims avoid war and conflict, remove misunderstanding through discussion, and behave in a conciliatory manner. According to the Qu'ran, war should be resorted to only when it is unavoidable, meaning that it is an undesired necessity that should be organized by designated persons and within specific moral limits. Muslims must seek peace and understanding whenever they encounter difficulties; however, they are required to fight to defend themselves if attacked.
Allah tells us in the Qur'an that corruption is the cause of war and that Allah does not love corruption:
Each time they kindle the fire of war, Allah extinguishes it. They rush about the land corrupting it. Allah does not love corrupters. (Surat al-Ma'idah: 64)
When we look at our Prophet's (saas) life, we see that he resorted to war only when it was necessary for self-defence.
The revelation of the Qur'an lasted for twenty-three years. For the first thirteen years, Muslims lived as a minority and oppressed religious community among the non-Muslim Meccans. Many of them were physically tortured, some were killed, and others had their houses and possessions plundered. All of them were constantly subjected to insults and threats. In spite of this, they remained non-violent and always tried to make peace with their enemies. Finally, when the pressure became unbearable, the Muslims moved to Yathrib (later Madinah) and set up their own city-state.
At those times when war was unavoidable, the Lord assisted our Prophet (saas) with many miracles, among them sending angels to give the Muslims victory over superior enemy forces:
Allah helped you at Badr when you were weak, so fear [and respect] Him, so that, hopefully, you will be thankful. (Surah Al 'Imran: 123)
Although the sincere Muslims were far fewer than their enemies, they fought in the field with great courage behind our Prophet (saas) and, with Allah's support, won great victories. Allah tells us in the Qur'an that He supported them with angels and announced that the angels would help them:
And when you asked the believers: "Is it not enough for you that your Lord reinforced you with three thousand angels, sent down?" Yes indeed! But if you are steadfast and have fear of [and respect for] Allah and they come upon you suddenly, your Lord will reinforce you with five thousand angels, clearly identified. Allah only did this for it to be good news for you, so that your hearts might be set at rest by it (help comes from no one but Allah, the Almighty, the All-Wise), and so that He might cut off or crush a group of unbelievers they might be turned back in defeat. (Surah Al 'Imran: 124-27)
Sir Edward Landseer's painting "The Arab Tent," dated 1866.
In other words, He sent the good news of angels' assistance to satisfy the Muslims' hearts. Of course, this was the only reason Allah needed. If He wills, He can defeat unbelievers with a single blow or drive them into the depths of the earth within minutes or seconds. Allah states in the Qur'an that many unbelievers perished in an unexpected moment due to a single sound, cyclone, or sudden disaster or that they were confused and buried beneath the ground. Of course, Allah has the power to do all of these things. It was good news for our Prophet (saas) and his community that the Lord gave them such a glorious and miraculous victory. Many Muslim interpreters and scholars have spoken of these things, among them the great scholar Omer Nashuhi Bilmen, who writes:
The army of Islam, venturing war with the polytheists of the Quraysh, advanced towards the River Badr The Prophet (saas) showed the places where the ones from the enemy's army would be killed, and this came about and was a great miracle. Eventually the army of Qureysh came to the Badr and seized it. But the next day it rained. The Companions had plenty of water, and their distress was thus overcome. They then descended onto the battlefield; the enemy forces were three times more numerous than the Muslims, but still they were afraid, and the fighting began. Since the Muslims appreciated the spiritual value of jihad and martyrdom, they threw themselves without fear, joyfully, into the fray. At this point Omar's freedman "Mahca" was killed. "Mahca is the lord of martyrs," said the Prophet. 50
Our Prophet (saas) prayed:
"O Lord, grant me the victory You promised," fell into a light slumber, and immediately awoke smiling. He addressed Abu Bakr, who was by his side: "Glad tidings, Abu Bakr. Gabriel and a great number of angels have come to our assistance." He then donned his armor and left the tent. Some Muslim warriors were concerned at the numbers of the more numerous enemy army who would take part in the fighting. At this, the glad tidings were imparted that help would come to the Muslims from the presence of Allah by means of angels. According to the account, at that moment a powerful wind blew up and nobody could see anything. This was a sign that Gabriel and a great number of the angels had come to the battlefield. Those angels were riding white horses. They appeared in the guise of white and yellow human beings and physically participated in the battle of Badr.
During this battle, first 1,000, then 2,000, and then 3,000 angels came to assist the Muslims. Their numbers finally reached 5,000 in total. 51
Allah tells in otther verses that He sent angels to help the Muslims:
Remember when you called on your Lord for help and He responded to you: "I will reinforce you with a thousand angels, riding rank after rank." Allah only did this to give you good news and so that your hearts would be at rest. Victory comes from no one but Allah. Allah is Almighty, All-Wise. And when He overcame you with sleep, making you feel secure, He sent water from heaven to purify you and remove satan's taint from you, and to fortify your hearts and make your feet firm. (Surat al-Anfal: 9-11)
In his commentary, Imam Sabuni describes the angels' assistance as follows:
Through the hadith that He would assist with 1,000 consecutive angels, Allah revealed that He had heeded his prayer. Commentators say this: According to the hadith, Gabriel sent down 500 angels and fought with them on the army's right wing. Mika'il also sent down 500 angels and fought on the army's left wing. Apart from Badr, it has not been possible to determine in which battles the angels fought. In other battles, they descended to make the number of Muslims look greater, but they did not fight.
Allah's helping you with angels is solely to give you glad tidings of victory. He helped so that you could find contentment with this victory. In fact, victory is only in the sight of Almighty Allah. Trust in His help; do not trust in your own strength and arms. Allah is victorious and cannot be defeated. Whatever His wisdom requires, that is what He does.
Remember that Allah brought you sleep from His own presence as an element of security. This is a miracle of the Prophet (saas), because at the moment of fear, sleep weighed on all. Ali (ra) says: "On the day of Badr, there was no horse other than Miqdat. I saw that everyone, apart from the Prophet (saas), was sleeping." Ibn Kathir says: "In order for the believers' hearts to be at peace with His help, they were as if asleep during the battle's most violent moment. This is another blessing granted by Allah. What happened was that during the battle of Badr, the Muslims were without water. At this, Allah caused such a rain to descend on them that water flowed from the valleys.'" 52
Another miracle was our Prophet's (saas) ability to reconcile the hearts of believers who took part in various struggles. By His word, it happened that people coming from different cities and communities, and even mutual enemies, came together to work for a common goal and to win Allah's approval. In many verses, Allah stated the good news of His help and support for all devout believers:
If they intend to deceive you, Allah is enough for you. He supported you with His help and with the believers, and unified their hearts. Even if you had spent everything on Earth, you could not have unified their hearts. But Allah has unified them. He is
Almighty, All-Wise. O Prophet, Allah is enough for you and for the believers who follow you. (Surat al-Anfal: 62-64)
With Allah's help, our Prophet (saas) and the believers, despite their weakness, defeated numerous armies of the unbelievers. Despite the Meccans' numerical strength and technical advantages, Allah enabled the believers to rout them.
Allah granted another miracle during this event:
O Prophet, spur on the believers to fight. If there are twenty of you who are steadfast, they will overcome two hundred; and if there are a hundred of you [who are steadfast], they will overcome a thousand of those who are unbelievers because they are people who do not understand. Now Allah has made it lighter on you, knowing there is weakness in you. If there are a hundred of you who are steadfast, they will overcome two hundred; and if there are a thousand of you [who are steadfast], they will overcome two thousand with Allah's permission. Allah is with the steadfast. (Surat al-Anfal: 65-66)
In another verse, Allah reveals that He sent invisible armies to punish the Meccan polytheists.
Then Allah sent down His serenity on His Messenger and on the believers, sent down troops you could not see, and punished the unbelievers. That is how the unbelievers are repaid. (Surat at-Tawba: 26)
While Allah helped the Muslims with miracles, He also punished their enemies for their ongoing cruelty and oppression toward those Muslims still in Mecca.
In his commentary, Ibn Kathir includes a story of those who lived at this time:
On the authority of Abu Hurayrah (ra), Imam Muslim reported that the Prophet (saas) said: "I have been helped by having terror (instilled in the hearts of my enemies), and I have been given words (of wisdom) that are concise though comprehensive in meaning." 53
Another commentator relates that the unbelievers' traps and ruses will be foiled by the believers' patience:
After Almighty Allah had forbidden us to take non-Muslims as our protectors and friends and told us why, He promised that He would foil all of the unbelievers' traps and snares as long as we had fear of [and respect for] Him and were patient. There were two situations in when He acted as the believers' guardian: on the Day of Uhud and the Day of Badr. On these two days, Almighty Allah foiled the enemies' traps and snares on account of the believers' patience and fear of [and respect for] Him. The proof of this assertion lies in the fact that steadfastness and fear of [and respect for] Allah are mentioned in the preceding verse: "But if you are steadfast and fear [and respect] Allah, their scheming will not harm you in any way." 54 The apparent small numbers of












/-

Regards,
NAJIMUDEEN M


{Edior & Publishor}

* More Than Ten Thousand(10,000) {Masha Allah}Most Usefull Articles!, In Various Topics!! :- Read And Get Benifite! * Visit :-

ShareShare

Follow Us











Qur'an Related, - The miracles in the cave

-
▌▌◙◙◙◙◙◙ ▌▌

:-> - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -










According to documents from Islamic and historical sources, the Prophet (saas) left his home on 27 Safar, fourteen years after Allah had bestowed prophethood upon him, and went to Abu Bakr's (ra) house. Later, they left Mecca together. Our Prophet (saas) knew that his enemies would first look for him on the northern road to Madinah. Therefore, they took the southern road leading to Yemen. After walking about 6 kilometres (5 miles), they came to the Thawr Mountain, which was high as well as difficult and dangerous to climb. They hid in a cave located in the mountain known as Athal. 48
In the meantime, the Quraysh blocked all of the roads and stationed armed men to control them. Men on foot and mounts combed the mountain slopes and valleys, searching for footprints. When they came right up to the cave's mouth, the Prophet Muhammad (saas) put his whole trust in Allah:
If you do not help him, Allah did help him when the unbelievers drove him out and there were two of them in the cave. He said to his companion: "Do not be despondent, Allah is with us." Then Allah sent down His serenity upon him and reinforced him with troops you could not see. He made the word of the unbelievers undermost. (Surat at-Tawba: 40)
Allah tells in the Qur'an that our Prophet (saas) submitted to Allah and was resigned to his fate. But the Lord assisted him, in return for his excellent moral character and trust, by granting him physical health and strength and a sense of security and well-being in his heart.
Many people might consider such a dangerous situation superficially, without feeling the anxiety of that moment, for those who are not targets cannot know such anxiety. For example, those who have never been pursued by an enemy cannot know the wakeful vigilance of our Prophet (saas) as he hid in mortal danger in the cave. It is very important for everyone with faith to think carefully about this situation in order to appreciate properly our Prophet's (saas) great self-sacrifice, patience, and wisdom.
But, as in other situations throughout his life, here too Allah miraculously delivered our Prophet (saas). When the Meccans finally reached the cave's mouth, they saw a spider's web at its entrance and that pigeons had made their nests and laid eggs there. So, thinking that no one was inside, they began to look elsewhere. Indeed, when we think of it, such an undisturbed spider's web could have been taken as a sign that no one was inside, for anyone entering it would have broken the web. The same is true with the pigeons. Certainly this was a miracle of Allah, the all-powerful ruler of all things, Who caused the spider to weave its web and placed the pigeons at the cave's entrance. Nothing happened to our Prophet (saas) or Abu Bakr (ra).
Another miracle is how Allah supported him with invisible armies and gave him a sense of inner security and well-being. According to the commentaries, the armies put under the command of the Prophet Muhammad (saas) consisted of angels. Indeed on the last part of Surat at-Tawba it is stated: "Then Allah sent down His serenity upon him and reinforced him with troops you could not see. He made the word of the unbelievers' undermost. It is the word of Allah that is uppermost. Allah is mighty and all-wise." In the Tafsir of Jalalayn, this miracle is interpreted as follows:
Allah says "if you do not help him," that is, it does not matter if you did not help Prophet Muhammad (saas), for Allah helped him, just as he helped him when "the unbelievers drove him out, the second of two." This refers to the year when the polytheists intended to kill the Prophet (saas), so he escaped from them, along with his Companion Abu Bakr al-Siddiq (ra). They concealed themselves in the cave of Thawr for three nights, with the enemy prowling around in great numbers, fruitlessly searchind for them. This was when Abu Bakr (ra) felt afraid, lest the unbelievers would find and harm them. However, the Prophet (saas) was certain of Allah's protection and support, and so reassured Abu Bakr (ra).
On the authority of Anas (ra), Imam Ahmad reported that Abu Bakr al-Siddiq (ra) said: "I was with the Prophet (saas) in the cave and, on seeing the traces of the pagans, said: 'O Messenger of Allah, if one of them should lift his foot, he will see us.' He replied: 'What do you think? For two (people), the third (of whom) is Allah?'" Al-Bukhari and Muslim also reported the same hadith.
Therefore Allah says, "then Allah sent his sakina upon him" that is, He sent His peace, tranquillity, and support upon His Messenger (saas) and "supported him with forces you saw not": angels. As for the verse "and made the word of the unbelievers while it was the Word of Allah that became uppermost," Ibn Abbas said: "The word of the unbeliever refers to associating partners with Allah, while the word of Allah refers to 'La ilaha illa Allah.'" 49
The Lord helped our Prophet (saas) with many miracles, defended him with angels, comforted his heart, and prevented his enemies from harming him. Allah protects, defends, and watches; He is the best of helpers and all power belongs to Him.
Our Prophet (saas) accomplished everything with Allah's help:
If they intend to deceive you, Allah is enough for you. He supported you with His help and with the believers. (Surat al-Anfal: 62)
But if you support one another against him, Allah is his Protector, and so are Gabriel and every right-acting believer. Furthermore, angels also will come to his support. (Surat al-Tahrim: 4)
Allah will certainly help those who help Him – Allah is All-Strong, Almighty. (Surat al-Hajj: 40)
... and so that Allah may help you greatly. (Surat al-Fath: 40)
... and other things you love: support from Allah and imminent victory. Give good news to the belivers. (Surat as-Saff: 13)
The unbelievers did not properly understand our Prophet's (saas) superiority and so were unable to appreciate that He is the sole Ruler over everything. They were very wrong to think that our Prophet (saas) could be defeated while under Allah's protection. Thus, they entered a struggle that could only to result in their defeat:
Allah reveals another verse that no one can harm our Prophet (saas) and that Allah, Gabriel, angels, and sincere believers are his friends, helpers, and supporters:
If the two of you would only turn to Allah, for your hearts clearly deviated ... But if you support one another against him, Allah is his Protector and so are Gabriel and every right-acting believer. Furthermore, angels also will come to his support. (Surat al-Tahrim: 4) The Lord protects and supports our














/-

Regards,
NAJIMUDEEN M


{Edior & Publishor}

* More Than Ten Thousand(10,000) {Masha Allah}Most Usefull Articles!, In Various Topics!! :- Read And Get Benifite! * Visit :-

ShareShare

Follow Us











Dought & clear, - (Principles of Fiqh), - Ijmaa‘ (scholarly consensus): definition, types and conditions



-

▌▌◙◙◙ ▌▌

ShareShare

▌▌◙◙◙◙◙◙◙ ▌▌
↓TRANSLATE THIS BLOG↓
IndonesiaArabicChinaEnglishSpanishFrenchItalianJapanKoreanHindiRussian
* Bulgarian ** Bengali ** Arabic ** Afrikaans ** Gujarati ** Greek ** German ** Georgian ** Italian ** Irish ** Hungarian ** Hebrew ** Hindi ** Hebrew ** Chinese (Traditional) ** Chinese (Simplified) ** Marathi ** Maltese ** Latin ** Lao * ▌▌◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙ ▌▌ ►● ╠▓╣ ►●


I would like to know what ijmaa‘ is, and what are its types and conditions?
Praise be to Allah.
Shaykh Ibn ‘Uthaymeen (may Allah have mercy on him) said:
In linguistic terms, ijmaa‘ means resolve and agreement.
In shar‘i terms, it means the agreement of the mujtahids of this ummah after the death of the Prophet (blessings and peace of Allah be upon him) on a shar‘i ruling.
By saying “agreement” we exclude differences of opinion; if there is a difference of opinion, even from one person, then we cannot say that there is ijmaa‘.
By saying “the mujtahids” we exclude the common folk and those who follow or imitate scholars; it does not matter whether they agree or disagree.
By saying “this ummah” we exclude the consensus of others, which carries no weight.
By saying “after the death of the Prophet (blessings and peace of Allah be upon him)” we exclude their agreement at the time of the Prophet (blessings and peace of Allah be upon him); ijmaa‘ or consensus at that time does not count as evidence, because evidence is established by the Sunnah of the Prophet (blessings and peace of Allah be upon him), whether in word or deed or by approval. Hence if a Sahaabi says “We used to do” or that they (i.e., people) used to do such and such at the time of the Prophet (blessings and peace of Allah be upon him), this is indicative of the approval of the Prophet (blessings and peace of Allah be upon him), according to consensus.
By saying “on a shar‘i ruling”, we exclude their agreement on a rational or human ruling, which has nothing to do with the matter under discussion, because we are talking about looking for ijmaa‘ as one of the kinds of shar‘i evidence.
Ijmaa‘ counts as evidence on the basis of a number of pieces of evidence, including the following:
1. The verse in which Allah, may He be exalted, says (interpretation of the meaning):“Thus We have made you (Muslims), a Wasat (just) (and the best) nation, that you be witnesses over mankind” [al-Baqarah 2:143]. The words “witnesses over mankind” include testifying about their deeds and judging their deeds, and the words of the witness may be accepted.
2. The verse in which Allah, says (interpretation of the meaning):“(And) if you differ in anything amongst yourselves” [an-Nisa’4:59]indicate that whatever they agreed upon is sound and correct.
3. The Prophet (blessings and peace of Allah be upon him) said: “My ummah will not unanimously agree on misguidance.”
4. We say: If the ummah unanimously agrees on something, it must be either true or false. If it is true, then it is proof. If it is false, how can this ummah, which is the dearest of nations to Allah since the time of its Prophet until the onset of the Hour, agree on something false with which Allah is not pleased? This is quite impossible.
Types of ijmaa‘
Ijmaa‘ is of two types: definitive and presumptive.
1. Definitive is that which well known and well established, such as consensus that the five daily prayers are obligatory and that zina (fornication, adultery) is haraam. No one can deny that this type of ijmaa‘ is proven and established, or that it constitutes proof in and of itself, or that the one who rejects it becomes a kaafir, unless he is ignorant and may be excused for his ignorance.
2. Presumptive is that which can only be known by means of research and study, where the scholars may differ as to whether is ijmaa‘ (on a particular issue) or not. The most correct scholarly opinion concerning that is the view of Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah, when he said inal-‘Aqeedah al-Waasitiyyah: The type of ijmaa‘ that is to be accepted is that of the righteous early generations (as-salaf as-saalih), because after their time there was a great deal of disagreement and the ummah spread far and wide. End quote.
It should be noted that the ummah cannot agree on something that is contrary to an unabrogated, clear, saheeh text, because it can only agree on what is true. If you see consensus that you think is contrary to that, then it must be one of the following: either the evidence is not clear, or it is not saheeh, or it is abrogated, or there is a difference of opinion concerning the matter of which you were not aware.
Conditions of ijmaa‘:
There are certain conditions for ijmaa‘, such as:
1. It should be soundly proven in the sense that it is either well known among the scholars or transmitted by a trustworthy narrator who has read widely.
2. It should not have been preceded by a well-known difference of opinion. If that was the case, then there is no ijmaa‘, because scholarly opinions are not invalidated by the death of their authors.
Ijmaa‘ does not cancel out a previous difference of opinion; rather it prevents differences of opinion from arising.
This is the most correct view, because of the strength of its argument.
And it was said that the second condition is not stipulated, so it is valid in a later period for there to be consensus on one of the previous opinions and for that to serve as proof for those who come afterwards.
According to the majority, it is not essential that those who unanimously agree all die when still holding this view for ijmaa‘ to be established; rather ijmaa‘ is established as soon as they (the scholars of a particular era) agree, and it is not permissible for them or anyone else to go against it after that, because the condition for the establishment of ijmaa‘ do not include any stipulation that the era (of the scholars who reached this consensus) should have come to an end with their passing. As ijmaa‘ is established at the moment they agree (on a particular issue), there is nothing that could cancel it out.
If one of the mujtahids (scholars) says or does something and that becomes well known among the mujtahids, and they do not denounce it even though they are able to do so, then it is said that there is ijmaa‘. It was said that this establishes that there is ijmaa‘; others said that it is may be regarded as proof but not ijmaa‘; and others said that it is neither ijmaa‘ nor proof. And it was said that if they all passed away before denouncing it then it is ijmaa‘, because their silence until the time of their death, even though they were able to denounce it, constitutes proof of their agreement. This is the view that is most likely to be correct.
Al-Usool min ‘Ilm al-Usool, 62-64
And Allah knows best.









/-
►● ╠▓╣ ►●
• ▌▌◙◙◙ ▌▌
* More Than Ten Thousand(10,000) {Masha Allah}Most Usefull Articles!, In Various Topics!! :- Read And Get Benifite! * Visit :-

◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙◙
► ╠▓╣ ►